انگولہ
انگولہ جسے جمہوریہ انگولا کے نام سے جانا جاتا ہے، وسطی افریقہ کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ اس کے جنوب میں نمیبیا، شمال میں جمہوریہ کانگو، مشرق میں زیمبیا جبکہ مغرب میں بحر اوقیانوس موجود ہے۔ اس کا دار الحکومت لواندا ہے۔
انگولہ | |
---|---|
پرچم | نشان |
شعار(لاطینی میں: Virtus Unita Fortior) | |
ترانہ: | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 12°21′S 17°21′E / 12.35°S 17.35°E [1] |
پست مقام | بحر اوقیانوس (0 میٹر ) |
رقبہ | 1246700 مربع کلومیٹر |
دارالحکومت | لواندا |
سرکاری زبان | پرتگالی |
آبادی | 36749906 (2023)[2] |
|
15983035 (2019)[3] 16517497 (2020)[3] 17051491 (2021)[3] 17590767 (2022)[3] سانچہ:مسافة |
|
16370553 (2019)[3] 16910989 (2020)[3] 17452283 (2021)[3] 17998220 (2022)[3] سانچہ:مسافة |
حکمران | |
طرز حکمرانی | جمہوریہ ، صدارتی نظام |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 25 اگست 1992 |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | 18 سال |
شرح بے روزگاری | 7 فیصد (2014)[4] |
دیگر اعداد و شمار | |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+01:00 |
ٹریفک سمت | دائیں [5] |
ڈومین نیم | ao. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | AO |
بین الاقوامی فون کوڈ | +244 |
درستی - ترمیم |
16ویں صدی سے 1975ء تک انگولہ پرتگال کی نو آبادی رہا ہے۔ آزادی کے بعد 1975ء سے 2002ء تک انگولہ میں انتہائی خونریز خانہ جنگی جاری رہی ہے۔ صحرائے صحارا کے علاقے میں تیل اور ہیروں کی پیداوار کے لیے انگولا دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ تاہم اوسط عمر اور بچوں کی شیرخوار عمر میں شرحِ اموات دنیا بھر میں سب سے بلند شرح والے ملکوں میں سے ایک ہیں۔ اگست 2006ء میں مختلف چھاپ مار گروہوں کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا جو اب بھی لاگو ہے۔
تاریخ
ترمیمابتدائی ہجرتیں
ترمیماس علاقے کے قدیم ترین آباد کاروں میں خوئیسن قبائل کے شکاری اور چرواہے شامل ہیں۔ بعد ازاں ان کی جگہ بنٹو قبائل آئے تاہم خوئیسن قبال آج بھی معمولی تعداد میں یہاں آباد ہیں۔ بنٹو قبائل موجودہ کیمرون کی جانب سے یہاں آئے تھے۔
پرتگالی دور حکومت
ترمیمجغرافیائی اعتبار سے آج کے انگولا کا رقبہ 15ویں صدی کے اواخر میں پہلی بار پرتگالی قبضے میں آیا۔ انگولا کو یورپی ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال کرنے لگے۔
بنگوئلا نامی پرتگالی قلعہ جو 1587 میں قصبہ بنا، بھی ایک اہم آبادی کا درجہ رکھتا تھا۔ پرتگالیوں نے بہت ساری بستیاں، قلعے اور تجارتی چوکیاں ساحلی علاقوں پر بنائیں جن کا انحصار غلاموں کی تجارت، خام مواد کی منتقلی وغیرہ پر تھا۔ افریقی غلاموں کی تجارت سے ہی یورپیوں اور ان کے افریقی ایجنٹوں کو بڑی تعداد میں سیاہ فام غلام ملتے تھے۔
یورپی تاجر اپنی تجارتی اشیاء کو افریقہ کے ساحل تک لاتے اور اس کے بدلے غلام لے جاتے۔ پرتگالی دور میں ہونے والی اس تجارت کا زیادہ تر حصہ برازیل میں زرعی مقاصد کے لیے سستے مزدور مہیا کرنا تھا۔ یہ تجارت 19ویں صدی کے نصف تک جاری رہی۔
پرتگالی بتدریج ساحلی علاقوں پر قبضہ کرتے گئے۔ اسی دوران پرتگال کی جنگ کے دوران فائدہ اٹھاتے ہوئے ولندیزیوں نے 1641 سے 1648 تک مقامی لوگوں کی مدد سے لوانڈا پر قبضہ کر لیا۔ 1648 میں ایک بحری بیڑا لوانڈہ کو واپس لے لیا اور پھر اپنے دیگر علاقوں کو بازیاب کرانے نکلا۔
1880 کی دہائی تک کچھ فائدے حاصل ہوتے رہے۔ 1885 میں برلن کانفرنس نے اس نوآبادی کی سرحدوں کا تعین کر دیا۔ برطانوی اور پرتگالی سرمایہ کاری نے کان کنی، ریلوے اور زراعت کے میدانوں کا رخ کیا۔ تاہم 20ویں صدی ہی میں پرتگال اس پورے علاقے پر اپنا قبضہ کرنے کے قابل ہو سکا۔ 1951 میں اسے پرتگال کا سمندر پار انگولا کا صوبہ بنا دیا گیا۔ پرتگالی تقریباً 500 سال تک انگولا میں موجود رہے۔ 1950 کی دہائی میں سیاسی جماعتوں نے منظم ہو کر اپنے حقوق مانگنا شروع کیے۔
پرتگالی سلطنت نے اس دوران قوم پرستوں کے آزادی کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ 1961 میں اس کے نتیجے میں مسلح جد و جہد شروع ہو گئی اور سیاہ فام چھاپہ ماروں نے بلا تفریق سیاہ فام اور سفید فام افراد کا قتل شروع کر دیا۔ اس جنگ کو نوآبادیاتی جنگ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں کئی چھاپہ مار تنظیمیں شامل تھیں۔ بہت سالوں کی مسلح لڑائیوں کے بعد 11 نومبر 1975 کو پرتگال میں ہونے والے انقلاب کے دوران انگولا نے آزادی حاصل کر لی۔
پرتگال کے نئے انقلابی رہنماؤں نے جمہوری تبدیلیوں کا عمل شروع کیا اور اپنی سمندر پار افریقی نوآبادیوں کی علیحدگی کو تسلیم کیا۔
آزادی اور خانہ جنگی
ترمیمنومبر 1975 میں آزادی کے بعد انگولا میں انتہائی تباہ کن خانہ جنگی شروع ہوئی جو کئی دہائیوں پر محیط تھی اور لاکھوں بے گناہوں کے ناحق قتل کی ذمہ دار بھی۔ پرتگال میں ہونے والے مذاکرات اور انتہائی شدید سیاسی اور سماجی دباؤ کے بعد تینوں مسلح چھاپہ مار گروہوں نے جنوری 1975 میں عارضی حکومت کے قیام کا فیصلہ کیا۔
تاہم دو ہی مہینوں کے دوران یہ گروہ پھر سے ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہو گئے اور انھوں نے اپنے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں پر اپنی حکومتیں قائم کر لیں۔ عالمی طاقتیں جلد ہی اس جنگ کا حصہ بن گئیں جو سرد جنگ کا انتہائی اہم مرحلہ بن گیا۔ امریکا، کانگو اور جنوبی افریقا ایک گروہ جبکہ روس اور کیوبا دوسرے گروہ کی حمایت کر رہے تھے۔
سیاست
ترمیمانگولا کا مقولہ ہے "اتحاد اچھائی کو بڑھاتا ہے "۔ ملک میں حکومت کی ایگزیکٹو برانچ صدر، نائب صدور اور وزراء کی کونسل پر مشتمل ہوتی ہے۔ کئی دہائیوں سے سیاسی طاقت صدر کے ہی پاس ہے۔
18 صوبوں کے گورنروں کا تقرر اور اختیارات صدر کی مرضی سے متعین ہوتے ہیں۔ 1992 کے آئین میں حکومتی ڈھانچے اور شہریوں کے حقوق و فرائض کا تذکرہ موٹے موٹے الفاظ میں کر دیا گیا ہے۔ قانونی نظام پرتگالی انداز کا ہے تاہم کمزور اور بکھرا ہوا ہے۔ ملک میں موجود کل 140 بلدیات میں سے صرف 12 میں عدالتیں کام کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ اپیل کورٹ کے طور پر کام کرتی ہے اور آئینی عدالت کا کام قوانین پر نظرِ ثانی کرنا ہے۔ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی دباؤ کے تحت ملک میں جمہوریت کا فروغ ہوا۔ تاہم زیادہ تر تبدیلیاں محض دکھاوے کی حد تک ہیں۔
5 ستمبر 2008 میں پارلیمانی انتخابات ہوئے اور ایم پی ایل اے نامی جماعت نے 81 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ 1992 کے بعد یہ پہلے عام انتخابات تھے۔ ان انتخابات کو جزوی طور پر آزاد لیکن غیر شفاف قرار دیا گیا ہے۔
2010 میں اپنائے جانے والے نئے آئین کے مطابق صدارتی عہدے کے لیے انتخابات ختم کر دیے گئے ہیں۔ صدر اور نائب صدور انتخابات جیتنے والی جماعت کے رہنما بنیں گے۔ عام طور پر صدر حکومت کے زیادہ تر امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ تاہم انگولا کا صدارتی نظام امریکی یا فرانسیسی صدارتی نظام نہیں بلکہ نپولن بونا پارٹ وغیرہ سے زیادہ مماثل ہے۔
فوج
ترمیمانگولا کی مسلح افواج کا سربراہ چیف آف سٹاف ہوتا ہے جو وزیرِ دفاع کے ماتحت کام کرتا ہے۔ انگولا کی فوج بحری، بری اور ہوائی فوج پر مشتمل ہیں۔ کل افرادی قوت 1٫10٫000 ہے۔ زیادہ تر روسی ساخت کا اسلحہ استعمال ہوتا ہے۔ تربیت کے لیے برازیل اور چیک اور مغربی ساخت کے جہاز استعمال ہوتے ہیں۔
پولیس
ترمیمقومی پولیس میں پبلک آرڈر، کرمنل انوسٹی گیشن، ٹریفک اور ٹرانسپورٹ، معاشی سرگرمیوں کی تفتیش اور تحقیق، ٹیکس اور سرحدی دیکھ بھال وغیرہ کے محکمے شامل ہیں۔
انتظامی تقسیم
ترمیمانگولا میں 18 صوبے اور 163 بلدیات ہیں۔
نقل و حمل
ترمیمانگولا میں نقل و حمل درجِ ذیل پر مشتمل ہے :
- ریلوے کے تین نظام جو کل 2٫761 کلومیٹر طویل ہیں
- 76٫626 کلومیٹر طویل شاہراہیں جن میں سے 19٫156 کلومیٹر پختہ سڑکیں شامل ہیں
- 1٫295 کشتی رانی کے قابل دریا وغیرہ
- 8 اہم بندرگاہیں
- 243 ہوائی اڈے جن میں سے 32 پختہ ہیں
شہروں اور قصبوں سے باہر شاہراہوں کے سفر کے لیے بالمعوم فور وہیل ڈرائیو گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔
جغرافیہ
ترمیمرقبے کے اعتبار سے انگولا دنیا کا 23واں بڑا ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ 12٫46٫620 مربع کلومیٹر ہے۔
انگولا کے جنوب میں نمیبیا، مشرق میں زیمبیا، شمال مشرق میں عوامی جمہوریہ کانگو اور مغرب میں جنوبی بحرِ اوقیانوس ہیں۔
موسم
ترمیمانگولا کا سالانہ اوسط ساحلی درجہ حرارت سردیوں میں 16 ڈگری جبکہ گرمیوں میں 21 ڈگری رہتا ہے۔ یہاں کل دو موسم ہوتے ہیں۔ نم اور خشک۔ نم موسم نومبر سے اپریل جبکہ خشک موسم مئی سے اکتوبر تک رہتا ہے۔
معیشت
ترمیمانگولا کی معیشت حالیہ برسوں میں تبدیلیوں کا سامنا کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہی معیشت چوتھائی صدی سے خانہ جنگی کا شکار تھی اور اب یہی معیشت افریقہ کی تیز ترین ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ 2001 سے 2010 تک انگولا کی معیشت نے 11.1 فیصد رفتار سے ترقی کی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ 2004 میں چینی بینک سے 2 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا ہے جو بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر استعمال ہوگا۔ اس کے علاوہ اس قرضے سے عالمی مالیاتی فنڈ کا اثر انگولا میں کم ہوا ہے۔
دی اکانومسٹ نے 2008 میں رپورٹ دی ہے کہ انگولا کی معیشت کا 60 فیصد حصہ تیل اور ہیروں سے آتا ہے۔ برآمدات پر بھی ہیروں اور تیل کا غلبہ ہے۔
ملکی ترقی کا تقریباً سارا ہی دار و مدار تیل کی بڑھتی ہوئی پیداوار پر ہے جو 20 لاکھ بیرل روزانہ تک ہو چکی ہے۔ دسمبر 2006 میں انگولا کو اوپیک کا رکن بنا دیا گیا ہے۔ 2002 کے امن معاہدے کے بعد 40 لاکھ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ہیں اور زرعی سرگرمیاں پھر سے عروج پر ہیں۔
اگرچہ ملک کی معیشت تیل کی بڑھتی ہوئی پیداوار اور سیاسی استحکام کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے تاہم اس وقت انگولا کو سماجی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کی تقریباً نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ دیہاتوں کی 58 فیصد آبادی جبکہ شہروں کی 19 فیصد آبادی غربت کی سطح کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ شہری اور دیہی آبادی نصف نصف ہیں۔ انسانی ترقی کے اعشاریے میں انگولا مسلسل سب سے نیچے والے گروہ میں شامل ہے۔
دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے مطابق تیل کی پیدوار بڑھنے سے انگولا اب چین کو تیل مہیا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔
1975 میں آزادی سے قبل انگولا جنوبی افریقہ میں بریڈ باسکٹ یعنی غلے اور غذائی اجناس کی پیداوار کا مرکز تھا۔ انگولا سے کیلے، کافی اور سیسل کی برآمدات دوسرے ملکوں کو جاتی تھیں۔ تاہم خانہ جنگی سے زرخیز زمینیں تباہ ہو گئی ہیں اور ہر جگہ بارودی سرنگیں موجود ہیں۔
آبادی کی خصوصیات
ترمیمانگولا کی کل آبادی کا اندازہ 1٫84٫98٫000 افراد ہے۔
اندازہ ہے کہ انگولا میں 2007 کے اواخر تک 12٫100 مہاجرین اور 2٫900 پناہ گزین موجود تھے۔ اس کے علاوہ ملک میں 4٫00٫000 تارکین وطن عوامی جمہوریہ کانگو سے، 30٫000 پرتگالی اور 1٫00٫000 سے زیادہ چینی باشندے بھی آباد ہیں۔
زبانیں
ترمیمانگولا میں مقامی قبائل کی زبانوں کے علاوہ پرتگالی بھی بولی جاتی ہے۔ اُمبنڈو، کِمبنڈو اور کیکونگو بڑی زبانیں ہیں۔ پرتگالی زبان سرکاری زبان ہے۔
مذہب
ترمیماندازہً ملک میں 1٫000 سے زیادہ مختلف مسیحی گروہ موجود ہیں۔ ان میں نصف سے زیادہ تعداد رومن کیتھولک ہیں۔ مغربی افریقہ اور دیگر ممالک سے آنے والے افراد کی زیادہ تر تعداد مسلمان ہے جو سنی العقیدہ ہیں۔ تاہم ان کی تعداد کل آبادی کا تقریباً 1 فیصد ہے۔ سعودی عرب اس کوشش میں ہے کہ اس کے فقہہ سے تعلق رکھنے و الے افراد کی تعداد بڑھ جائے۔ لادین افراد کی تعداد بھی قابلِ ذکر ہے۔ قدیم افریقی مذاہب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
صحت
ترمیمہیضہ، ملیریا، مرضِ کلب یعنی پاگل کتے کے کاٹے کی بیماری اور افریقی جریانِ خون کے بخار عام ہیں۔ تپ دق اور ایڈز کی شرح بھی بہت بلند ہے۔ انگولا میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات دنیا کی بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔
تعلیم
ترمیمقانونی طور پر 8 سال تک تعلیم لازمی اور مفت ہے لیکن اسکولوں کی عمارات اور تدریسی عملے کی کمی کی وجہ سے شرح خواندگی کم ہے۔
ثقافت
ترمیمپرتگالی انگولا میں 400 سال سے زیادہ موجود رہے ہیں۔ نتیجتاً دونوں ممالک میں مشترکہ ثقافتی اقدار مثلاً تعلیم اور مذہب وغیرہ موجود ہیں۔ تاہم انگولا کی اپنی ثقافت بنٹو قبائل سے تعلق رکھتی ہے جس پر پرتگالی اثرات واضح ہیں۔
فہرست متعلقہ مضامین انگولا
ترمیمویکی ذخائر پر انگولہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ "صفحہ انگولہ في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 دسمبر 2024ء
- ↑ https://data.who.int/countries/024 — اخذ شدہ بتاریخ: 22 نومبر 2024
- ^ ا ب ناشر: عالمی بینک ڈیٹابیس
- ↑ http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
- ↑ http://chartsbin.com/view/edr