ریاست اودھ
دہلی کی مغلیہ سلطنت کے بعد جو نیم آزاد اور خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں ان میں سے ایک سلطنت اودھ بھی تھی۔
حکمران
اس سلطنت کا بانی دربار دہلی کا ایک ایرانی امیر سعادت خاں (1722ء تا 1739ء) تھا جس کو مغل حکمران کی طرف سے برہان الملک کا خطاب ملا تھا۔
اودھ کی ریاست بھی سلطنت دہلی کی بالادستی تسلیم کرتی تھی اور اس کے کئی حمکران بادشاہ دہلی کے عہدیدار تھے۔ سعادت خاں نے کرنال کی جنگ میں اپنے توپخانے کے ساتھ نادر کے مقابلے میں محمد شاہ کی مدد کی تھی، صفدر جنگ (1739ء تا 1754ء) اور شجاع الدولہ (1754ء تا 1775ء) نے وزیر سلطنت کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ 1764ء میں بکسر کی جنگ میں شجاع الدولہ کی شکست کے بعد اودھ کی ریاست انگریزوں کے زیر اثر آگئی لیکن انگریزوں نے اپنی سیاسی مصلحت کی وجہ سے اس کا وجود ختم نہیں کیا۔ شجاع الدولہ کے زمانے میں اودھ کی ریاست اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ 1774ء میں روہیل کھنڈ کے حکمران حافظ رحمت خاں (1749ء تا 1774ء) کو انگریزوں کی مدد سے شکست دینے کے بعد روہیل کھنڈ کا علاقہ بھی اودھ میں شامل ہو گیا اور ریاست کی حدود گورکھ پور سے دریائے جمنا کے کنارے تک پھیل گئیں۔
شجاع الدولہ کے بعد اودھ کی ریاست پر انگریزی دباؤ بڑھ گیا اور نوابان اودھ انگریزوں کے احکام کے آگے بے بس ہو گئے۔ آصف الدولہ (1775ء تا 1797ء) کے زمانے میں جونپور اور غازی پور کے اضلاع پر اور سعادت علی خاں (1798ء تا 1814ء) کے زمانے میں روہیل کھنڈ، کانپور، الہ آباد، اعظم گڑھ اور گورکھ پور کے اضلاع پر انگریز قابض ہو گئے۔ نوابان اودھ اب انگریزوں کی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں رہے تھے لیکن اس حالت میں غازی الدین حیدر (1814ء تا 1827ء) نے نواب کا لقب چھوڑ کر بادشاہ کا لقب اختیار کیا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب وہ بادشاہ دہلی کے ماتحت نہیں رہے۔ اس کے بعد سے اودھ کے تمام حکمران بادشاہ کہلائے جانے لگے۔ آخری حکمران واجد علی شاہ (1847ء تا 1856ء) پر انگریزوں نے بد نظمی کا الزام لگا کر تخت سے الگ کردیا اور 1856ء میں مملکت اودھ کو برطانوی ہند میں ضم کرلیا۔ واجد علی شاہ کی پنشن مقرر کردی گئی اور کلکتہ میں رہنے کی اجازت دے دی جہاں اس کا 1887ء میں انتقال ہو گیا۔
لکھنؤ اور اس کا معاشرہ
شجاع الدولہ کے زمانے تک اودھ کا دارالحکومت فیض آباد تھا۔ اس کے بیٹے آصف الدولہ نے لکھنؤ کو دارالحکومت بنایا اور آخر تک اس کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ نوابان اودھ کے زمانے میں دارالحکومت لکھنؤ کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ اس دور میں اس شہر نے ایک معمولی قصبے سے بڑھ کر ایک بڑے شہر کی شکل اختیار کرلی۔ نوابوں نے شاندار عمارات بنوائیں جو محلات، باغات، مساجد، امام بارگاہوں اور مقابر پر مشتمل تھیں لیکن ان میں جامع مسجد اور قیصر باغ کے دو مقبروں کے علاوہ دوسری عمارتیں فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ نہیں تھیں۔ بہرحال ان میں سے بیشتر عمارتیں آج بھی لکھنؤ کی زینت ہیں۔ شاہان اودھ کے زمانے میں لکھنؤ کا شمار شمالی ہند میں دہلی اور آگرہ کے بعد تہذیب و شائستگی کا تیسرا بڑا مرکز بن گیا۔
لیکن شاہان اودھ کا یہ دور ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال کی انتہا ہے۔ شائستگی کے نام پر تصنع، بناوٹ اور نمود و نمائش نے عروج پایا۔ سرکاری سرپرستی میں جنسی آوارگی بڑھی۔ طوائفوں اور بازاری عورتوں کو تاریخِ اسلام میں پہلی مرتبہ لکھنؤ میں عزت و احترام کا مقام دیا گیا۔
شاہان اودھ شیعہ مذہب کے پیرو تھے۔ خاص طور پر آصف الدولہ کے بعد سے شیعیت کو سرکاری مذہب کی شکل دے دی گئی۔ اس دور میں مذہب کے نام پر نئے نئے مراسم شروع کیے گئے جو ہندوؤں کی مختلف رسوم کی نقل تھے اور جن کے ذریعے ہمارے معاشرے میں اور شیعی مذہب کی رسومات میں ہندو اثرات داخل ہوئے۔ [1]
علم و ادب کی سرپرستی
اردو ادب اور شاعری کی نشو و نما میں دہلی کے بعد لکھنؤ کو اہم مقام حاصل ہے۔ دہلی کے زوال خاص طور پر نادر شاہ کے حملے کے بعد سے جب دہلی ہنگاموں کا مرکز بن گیا تو یہاں کے اہل فضل و کمال نے روہیل کھنڈ، لکھنؤ، مرشد آباد، حیدر آباد، ارکاٹ اور میسور کا رخ کیا جہاں مقامی مسلمان حکومتوں نے ایک حد تک امن کی فضاء قائم کر رکھی تھی۔ ان تمام شہروں میں لکھنؤ سب سے قریب تھا۔ نوابان اودھ نے بھی ادیبوں اور شعراء کی حوصلہ افزائی کی اس لیے ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد نے لکھنؤ کا ہی رخ کیا جو شاعر اس زمانے میں دہلی اور آگرے سے لکھنؤ آئے ان میں خان آرزو، سودا، مصحفی، جرات، انشاء اور میر تقی میر کے نام قابل ذکر ہیں۔ مشہور شاعر آتش اگرچہ فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کے والد دہلی سے نقل مکانی کرکے اودھ آگئے تھے۔
شاہان اودھ کے زمانے میں مرثیہ نگاری نے خاص طور پر عروج پایا اور اردو زبان کے سب سے بڑے مرثیہ نگار میر انیس اور سلامت علی دبیر اسی دور سے تعلق رکھتے تھے، اگرچہ ان کی زندگی کا آخری حصہ انگریزی دور میں گذرا۔
دینی تعلیم کے سلسلے میں یہ دور اس وجہ سے قابل ذکر ہے کہ ملا نظام الدین نے تعلیم کا وہ مشہور نصاب اسی زمانے میں ترتیب دیا جو آج بھی درس نظامیہ کے نام سے مشہور ہے۔ لکھنؤ کا محلہ "فرنگی محل" اس دور میں بر صغیر کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز بن گیا۔ ملا نظام الدین کا انتقال 1748ء کے بعد ہوا۔ اودھ کا قصبہ بلگرام اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں وہاں کی خاک سے کئی قابل ذکر علماء اٹھے۔ ان میں غلام علی آزاد اور سید مرتضیٰ زبیدی قابل ذکر ہیں۔
نوابانِ اودھ (لکھنؤ)
تصویر | لقب | نام | پیدايش | دور حکومت | وفات |
---|---|---|---|---|---|
سعادت خان برہان الملک | میر محمد امین موسوی | 1680 | 1722 - 1739 | 1739 | |
صفدر جنگ | ابو المنصور محمد مقیم خان | 1708 | 1737 - 1754 | 1754ء | |
شجاع الدولہ | جلال الدین حیدر ابو المنصور خان | 1732 | 1753 - 1775 | 1775 | |
آصف الدولہ | محمد یحی میرزا زمانی | 1748 | 1775 - 1797 | 1797 | |
آصف جاہ میرزا | وزیر علی خان | 1780 | 1797 - 1798 | 1817 | |
یامین الدولہ | سعادت علی خان | 1752 | 1798 - 1814 | 1814 | |
رفاعت الدولہ | ابو المظفر غازی الدین حیدر خان | 1769 | 1814 – 1827 | 1827 | |
ناصر الدین حیدر، شاہ جہاں | ابو المنصور قطب الدین سلیمان جاہ | 1803 | 1827 – 1837 | 1837 | |
ابو الفتح معین الدین | محمّد علی شاہ | 1777 | 1837 – 1842 | 1842 | |
نجم الدولہ، ابو المظفر مصلح الدین | امجد علی شاہ | 1801 | 1842 – 1847 | 1847 | |
ابو المنصور میرزا | واجد علی شاہ | 1822 | 1847 – 1856 | 1887 | |
بیگم حضرت محل | محمّدی خانم | ؟ | اپنے بیٹے اور تخت نشیں برجیس قدر کے حق کے لیے انگریزوں کے خلاف شورش کی اور اپنے حامیوں کے حمراہ جنگ آزادی ہند 1857ء لڑی | 1879 | |
برجیس قدر | رمضان علی | 1845 | تاجداری بنیادی طور پر انگریزوں نے ختم کر دی | 1893 |
حوالہ جات
ویکی ذخائر پر ریاست اودھ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |