بلخ شیر مزاری
سردار | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
بلخ شیر مزاری | |||||||
بلخ شیر مزاری مزاری قبیلہ کے سردار اور پاکستان کے نگران وزیر اعظم
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 8 جولائی 1928ء کوٹ کرم خان |
||||||
وفات | 4 نومبر 2022ء (94 سال)[1] لاہور |
||||||
شہریت | برطانوی ہند (1928–1947) پاکستان (1947–2022) |
||||||
جماعت | پاکستان تحریک انصاف | ||||||
مناصب | |||||||
نگران وزیر اعظم پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 18 اپریل 1993 – 26 مئی 1993 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | ایچی سن کالج | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
مادری زبان | پنجابی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، پنجابی | ||||||
درستی - ترمیم |
بلخ شیر مزاری (انگریزی: Balakh Sher Mazari)، (پیدائش: 8 جولائی 1928ء ---وفات 4 نومبر 2022ء) پاکستان کے مشہور سیاست دان اور سابق نگراں وزیر اعظم رہے ہیں۔ قدیم مزاری قبیلے کے سردار (تمندر) اور سب سے بڑے سردار، میر بلخ شیر مزاری 8 جولائی 1928ء کو کوٹ کرم خان میں اکیسویں سردار اور مزاری قبیلے کے چھٹے میر مراد بخش خان مزاری کے ہاں پیدا ہوئے۔انھیں 1933ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد مزاری قبیلہ کا چیف بنا دیا گیا جنھوں نے صرف 9 ماہ تک چیف کے طور پر حکومت کی تھی۔بلخ شیر مزاری والد میر مراد بخش مزاری سے قبل ان کے بڑے بھائی میر دوست محمد خان مزاری اور ان کے والد میر شیر محمد خان مزاری مزاریوں کے 19ویں سردار اور چوتھے میر رہ چکے تھے۔ یاد رہے کہ مزاری قبیلہ پاکستان کے بلوچستان، سندھ اور پنجاب صوبوں کے درمیان ٹرسٹیٹ ایریا پر واقع ہے۔
ابتدائی حالات
[ترمیم]1945ء میں ایچی سن کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد، بلخ شیر مزاری روجھان مزاری میں رہنے لگے، جہاں سے 1951ء میں انھوں نے فعال سیاست میں شمولیت اختیار کی اور کئی مواقع پر رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنے قبیلے کے سردار کے طور پر، بلخ شیر مزاری کو ’’میر‘‘ کا خطاب حاصل ہے لیکن وہ ’’تمندر‘‘ یا سردار کے انداز سے بھی چلتے ہیں۔بلخ شیر مزاری 22 ویں سردار اور مزاریوں کے ساتویں میر ہیں۔ بلخ شیر مزاری کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی شیرباز خان مزاری نے بھی پاکستان کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے یہاں تک کہ ان کے پوتے میر دوست محمد مزاری راجن پور سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن پارلیمنٹ ہیں جنھوں نے وزارت پانی و بجلی کے پارلیمانی سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔
بطور نگران وزیر اعظم
[ترمیم]19 اپریل 1993ء کو صدر غلام اسحاق خان نے اپنے ماورائے آئین صدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اقتدار کی کشمکش کو حل کرنے کے لیے پاکستان کے آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو ان الزامات کے تحت برطرف کر دیا اور اس کے بعد غلام اسحاق خان نے میر بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا۔ نگران وزیر اعظم کے طور پر اپنے مختصر کیریئر میں، مزاری کی خارجہ پالیسی ان کی مضبوط قوت رہی۔ ان کی طرف سے ایک اہم اقدام اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کے نمائندہ سربراہ کی حیثیت سے شرکت کرنا تھا۔ سربراہی اجلاس میں انھوں نے او آئی سی پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کے لیے پرعزم اقدامات کرے۔ کشمیری عوام کی جدوجہد سے متعلق انھوں نے کہا کہ انھیں ان کے حق خودارادیت سے محروم رکھا گیا ہے اور کشمیری سرزمین پر بھارت کے مسلسل قبضے کی مذمت کی۔ انھوں نے نشان دہی کی کہ نہ ختم ہونے والا جبر کشمیری عوام کی بھارت کے ناجائز قبضے سے آزادی کی خواہش کو توڑنے میں ناکام رہا ہے۔ فلسطین کے سوال پر وزیر اعظم بلخ شیر مزاری نے کہا کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 اور 338 پر مکمل عملدرآمد کرنا چاہیے اور تمام فلسطینی عوام کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ بوسنیا ہرزیگوینا میں نسل کشی پر انھوں نے کہا کہ پاکستان نے سربیا پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو اسپانسر کیا ہے۔ انھوں نے مخلصانہ طور پر امید ظاہر کی کہ کانفرنس بوسنیا ہرزیگوینا کی ضروریات کو فراخدلی سے جواب دے گی۔ نگران وزیر اعظم بلخ شیر مزاری نے او آئی سی سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ آذربائیجان پر آرمینیا کے حملے کی شدید مذمت کرے اور آذربائیجان اور نگورنو کاراباخ کے علاقے سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کرے۔ قبرص کے معاملے پر وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے ترکی اور یونانی برادریوں کی برابری پر مبنی دو زونل اور دو فرقہ وارانہ وفاقی ڈھانچے کی حمایت کی۔ انھوں نے عالم اسلام سے بھی مطالبہ کیا کہ سیاسی تبدیلی کے اس دور میں افغانستان کے عوام کا ساتھ دیں۔
نواز شریف حکومت بحال
[ترمیم]26 مئی 1993ء کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل اور وزیر اعظم کی برطرفی غیر آئینی اقدام ہے سپریم کورٹ کا یہ اقدام اسحاق خان کے صدارتی اختیارات کے بھاری ہاتھ سے استعمال کی شدید سرزنش تھی اور اسے جمہوریت کے حامیوں کی فتح کے طور پر سراہا گیا۔ اس کے باوجود، اگرچہ سپریم کورٹ نواز شریف کی حکومت کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی، لیکن پہلے سے موجود جمود کو بحال نہیں کیا جا سکا اور صدر اور وزیر اعظم کے درمیان کشمکش جاری رہی، جس سے باقاعدہ حکومتی کام کاج کا حصول ناممکن ہو گیا۔
سیاسی سفر
[ترمیم]بلخ شیر مزاری بے 1950ء کی دہائی میں سیاست میں حصہ لیا۔ 1951ء کو ڈسٹرکٹ بورڈ ڈیرہ غازی خان کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے ر کن بنے۔ 1955ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے پاکستان دستور ساز اسمبلی جبکہ 1956ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1973ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے پنجاب صوبائی اسمبلی جبکہ 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تاہم پارٹی سے اختلافات کے بعد انھوں نے استعفا دیدیا۔ 1982ء میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات می قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں نے پارلیمانی ایسوسی ایشن، دولت مشترکہ، انٹر پارلیمانی یونین اور اقوام متحدہ میں متعدد بار پاکستان کی نمائندگی کی۔
وفات
[ترمیم]4 نومبر 2022ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پا گئے ،[2]
نگران وزیر اعظم
[ترمیم]24 اکتوبر 1990ء کو آئی جے آئی کے ٹکٹ پر راجن پور حلقہ این اے -134(موجودہ حلقہ 175)سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 18 اپریل 1993ء کو صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی توڑ دی۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف حکومت اختتام پزیر ہوئی اور میر بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ 26 مئی 1993ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدر غلام اسحاق خان کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت کو غیر مشروط طور پر بحال کر دیا۔ اسمبلی کی اس بحالی کے ساتھ ہی نگراں وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری 26 مئی 1993ء ہی کو 39 دن حکومت کرنے کے بعد رخصت ہو گئے اور اقتدار نواز شریف کو منتقل کر دیا گیا۔24 اکتوبر 1993ء کے عام انتخابات میں میر بلخ شیر مزاری ایک بار پھر اپنے آبائی حلقہ این اے -134 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
سیاسی عہدے | ||
---|---|---|
ماقبل | وزیراعظم پاکستان 1993ء |
مابعد |