ضابطہ لباس
ضابطۂ لباس (انگریزی: Dress code) ان اصول و ضوابط کا مجموعہ ہے، جو اکثر تحریر شدہ ہوتے ہیں اور تفصیلات بیان کرتے ہیں کہ کس طرح کے کپڑے پہنے جائیں۔ ہر جگہ کا ضابطۂ لباس اس طرح سے تیار کیا جاتا ہے جو اس جگہ کے سماجی نقطۂ نظر اور رسوم و رواج کا آئینہ دار ہو۔ اسی وجہ سے ادارہ جات، سماج، برادری، ملکوں اور یہاں تک تقاریب میں ضابطہ لباس کافی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی مقصد اور موقع کی مناسبت سے ضابطہ لباس الگ ہو سکتے ہیں۔ کئی بار انسانی حقوق تنظیمیں اور دیگر سماجی گروہ ایک مخصوص ضابطہ لباس سے ناخوش ہوتے ہیں۔ کئی بار ضابطۂ لباس شخصی آزادی انتخاب کے منافی سمجھا جاتا ہے۔
حجاب پر سختی
[ترمیم]سنہ 1979ء کا اسلامی انقلاب ایران میں بڑے پیمانے پر کئی مثبت تبدیلیاں لے کر آیا، لیکن انسانی حقوق کے فعالیت پسند کے مطابق یہ کم از کم خواتین کے لیے اچھے نہیں تھے۔ خواتین کا لباس اور بال بنانے کا طریقہ ایک ایسا شعبہ ہے جو جانچ پڑتال کے تحت آیا ہے۔ سابقہ شاہ نے سنہ 1930ء میں نقاب پر نہ صرف پابندی لگادی تھی بلکہ پولیس کو زبردستی اسکارف کھینچ لینے کا حکم صادر کیا تھا۔ لیکن سنہ 1980ء کے اوائل میں نئی اسلامی حکومت نے ایک ضابطہ لباس نافذ کیا، جس کے تحت خواتین کا حجاب پہننا لازم قرار دیا گیا۔[1] جان کاروں کے مطابق ان اقدامات سے عوامی زندگی میں خواتین کی شمولیت کم ہو گئی تھی۔
تعلیم گاہوں میں لباس پر سختیاں
[ترمیم]بھارت اور پاکستان میں اسکولوں اور کالجوں میں لباس پر پابندیاں شہری سماج، انسانی حقوق کے فعالیت پسندوں اور ماہرین تعلیم کے بیچ اکثر موضوع بحث بنے ہیں۔ 2019ء میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے لاہور میں یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی،لاہور (یوای ٹی) کے جاری کردہ اعلامیے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں مذکورہ یونیورسٹی کے طالب علموں کے لیے ‘ضابطہ لباس’ متعارف کیا گیا ہے جس کی رو سے ديگر چیزوں کے علاوہ، عورتوں کے لیے دوپٹہ پہننا لازمی ہے اوران طالب علموں کو جماعت میں شریک ہونے کی اجازت نہیں ہے جو ضابطہ لباس کی پاس داری نہیں کرتے۔ آج جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آرسی پی نے کہا ‘ انتخاب کا حق بنیادی حقوق کی روح ہے۔ ایک ایسے ضابطہ لباس کا نفاذ غیر ضروری اورمضحکہ خیز ہے جو گھر سے باہر عورتوں کے لباس کے حوالے سے رجعتی سوچ کی حمایت کرتا ہے۔[2]