مارکسیت
کارل مارکس (1883ء-1818ء) کے نظریات کے مجموعے کو مارکس ازم یا مارکسیت کہا جاتا ہے جسے مارکس نے اپنے ساتھی فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر ترتیب دیا۔ دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریک کے نظریات اور پروگرام ہیں۔ [1] مارکسزم نہ کوئی مفروضہ ہے اور نہ خیالی پلاؤ بلکہ دیگر سائنسی علوم کی طرح انسانی سماج کے ارتقا کاعلم ہے ۔ جوتجزیہ کے بعد سرمایہ داری نظام کے خاتمہ اور سوشلزم کمیونزم کے قیام کو نویددیتاہے۔ جس طرح سائنس علوم میں آئے دن تبدیلیوں کے باعث بنیادی سائنسی سچائیاں ختم نہیں ہو جاتیں۔ اس طرح انسانی سماج میں تمام تر تبدیلیوں کے باوجود سماجی ارتقا کے متعلق بتائے گئے مارکسی سائنسی اصول ختم نہیں ہو سکتے۔ جس طرح کرہ ارض پر بے شمار تبدیلیاں ہونے کے باوجود زمین کے گول ہونے کی حقیقت نہیں بدل سکتی۔ جس طرح زمین کے اپنے محور کے گرد گردش کے باعث دن اور رات کو سچائی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ جس طرح فزکس علم ثبات اور نفی کے بغیر پیش قدمی نہیں کرسکتا اور اسی طرح انسانی سماج کے دریافت شدہ مارکسی قواعد کسی کی خواہش کے مطابق تبدیلی نہیں ہو سکتے۔[2] مارکس نے اپنے رفیق ویدمیئر کو 5 مارچ 1852ء کو لکھے گئے خط میں بیان کیا کہ اس کی تھیوری یعنی “مارکسزم” کیا ہے۔ مارکس نے لکھا کہ:
“جدید معاشرے میں طبقوں یا ان طبقوں کے درمیان کشمکش کی موجودگی کی دریافت کا سہرا میرے سر نہیں جاتا۔ مجھ سے بہت پہلے سرمایہ دارانہ تاریخ دان اس طبقاتی کشمکش کے تاریخی ارتقا کو اور سرمایہ دارانہ معیشت دان طبقاتی معیشت کو تفصیل سے بیان کرچکے تھے۔ جو نئی بات میں نے کی ہے وہ یہ ثابت کرنا ہے کہ:[3]
- طبقوں کا وجود پیداوار کی ترقی میں مخصوص تاریخی مرحلے سے مشروط ہے۔
- طبقاتی جدوجہد لازمی طور پر “پرولتاریہ (مزدور طبقے) کی آمریت” کی جانب لے جاتی ہے۔
- کہ یہ آمریت بذات خود طبقوں کے خاتمے اور غیر طبقاتی سماج کی جانب منتقلی پر مشتمل ہے۔
کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز کا نعرہ تھا: دنیا کے “مزدوروں” متحد ہو جاؤ![4]
کارل مارکس سمجھتے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے اندر یہ خامی موجود ہے کہ یہ مسلسل بڑے پیمانے پر معاشی اتارچڑھاؤ پیدا کرتا ہے اور آخر کار اپنے آپ ہی کو ختم کر لے گا۔ اِس عظیم فلسفی، معیشت دان اور انقلابی کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام شدید طور پر ایک غیر مستحکم نظام ہے۔ غلامی کا نظام اورجاگیردارانہ معاشرے کئی صدیوں تک قائم رہے۔ اِن کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام جس چیز کو چھوتا ہے اسے بدل دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں صرف برانڈ ہی تیزی سے تبدیل نہیں ہوتے بلکہ کمپنیاں اور صنعتیں بھی تخلیقی اور اچھوتے عمل کے نتیجے میں بنتی اور ختم ہوتی ہیں جب کہ انسانی رشتے بھی تحلیل اور نئی شکل میں دوبارہ بنتے ہیں۔انھیں اس بات پر اعتماد تھا کہ ایک عوامی انقلاب آ کر رہے گا اور جس کے نتیجے میں کمیونسٹ نظام آ جائے گا جو زیادہ پیداوار کرنے والا اور زیادہ انسان دوست نظام ہے [5]
تاہم چند نقاد کے مطابق مارکسیت اور اس سے رونما ہونے والی سوشلزم کی منصوبہ بند سوسائٹی ایک متصورہ خواہش ہے جہاں مساوات پر زور دیا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں سرمایہ داری کے تحت تشکیل شدہ طبقاتی نظام ایک عمرانی و تجرباتی حقیقت ہے۔ [6]
بنیادی اجزائے ترکیبی
[ترمیم]مارکسزم کے بنیادی خیال کے مطابق طبقاتی سماجوں میں حاکم اور محکوم طبقات کے مابین ہر وقت کشمکش جاری رہتی ہے۔ جبکہ وہ طبقہ جس کا استحصال کیا جاتا ہو یعنی پرولتاریہ اپنے ظالموں اور استحصال کرنے والوں یعنی بورژوا طبقے سے اس وقت تک آزادی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے ساتھ پورے معاشرے کو ہمیشہ کے لیے استحصال، ظلم اور طبقاتی جدوجہد سے چھٹکارہ نہ دلا دے۔[7]
مارکس نے اپنی تصنیف کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا کہ،
وہ ہتھیار جن سے بورژوا طبقے نے جاگیر دار نظام کو زیر کیا تھا، اب خود بورژوا طبقے کے خلاف اٹھائے جا رہے ہیں۔ لیکن بورژوا طبقے نے صرف وہ ہتھیار ہی نہیں ڈھالے جو اس کی موت کا پیغام لا رہے ہیں، وہ ان آدمیوں کو بھی وجود میں لے آیا ہے جو یہ ہتھیار اٹھائیں گے، یعنی پرولتاریہ، جدید مزدور طبقہ۔[8]
مارکسیت کے نظریات دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریک کے نظریات اور پروگرام ہیں۔ یہی سوشلسٹ انقلاب اور کمیونسٹ معاشرے کے حصول کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔[7]
لینن نے مارکسزم کی سچائی کو ان الفاظ میں بیان کیا:
مارکس کا نظریہ طاقتور ہے کیونکہ وہ سچا ہے۔ یہ نظریہ مکمل اور مربوط ہے اور لوگوں کو ایک ایسا باضابطہ عالمی تصور مہیا کرتا ہے جو وہم پرستی، رجعت پرستی اور بورژوا زبردستی کی حمایت کی کسی شکل سے بھی میل نہیں کھا سکتا۔ [7]
مارکسزم کے بنیادی اجزائے ترکیبی مندرجہ ذیل ہیں؛
- جدلیاتی مادیت
- تاریخی مادیت
- مارکسی معیشیت
جدلیاتی مادیت
[ترمیم]یورپین فلسفہ درحقیقت قدیم یونانی فلسفہ کا ہی تسلسل ہے، فلسفے کا بنیادی مرکز ہمیشہ سے ہی حقیقت کا جاننا رہا ہے، اس سوال کا جواب دو مخصوص سوچو ں کے ذریعے دیا گیا ہے۔ اس میں عینیت پرستی ہے تو دوسرا تاریخ کا مادی تصور ہے۔ یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کی مخالف سمت میں سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ عینیت پرستوں کے نزدیک سچائی سوچ اور روح کے سوا کچھ نہیں ہے، ان کے نزدیک یہ دونوں مادے کے بغیر وجود رکھتے ہیں۔[9] اگرچہ قدیم یونانی بھی مادی تصور کے حوالے سے جستجو میں مگن تھے مگر وہ اپنے حالات کی وجہ سے عینیت پرستی کا شکا ر رہے۔ تاہم جدلیات کا بانی قدیم یونانی فلسفی کابانی ہیراکلیٹس سمجھا جا تا ہے جس نے کائنات میں جاری حرکت و تبدیلی کو مانتے ہوئے اس نے تضاد کو ان کی علت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے جدلیاتی سائنس کی بنیاد رکھی۔ جدلیاتی سائنس کو تاریخ میں پہلی بار ایک جامع فلسفیانہ نظام کی شکل میں جرمن فلسفی جارج ہیگل نے پیش کیا۔اس نے جدلیات کے اہم ترین اصول دریافت کیے۔ یہی اصول بعد ازاں مارکسی مفکر فریڈرک اینگلز نے مستعار لیے اور انھیں مادی جدلیات کی تشکیل و توضیح کے لیے استعمال کیا۔[10]
ہیگل ایک عالمگیر روح اور ریزن کی بات کرتا ہے۔ لیکن یہ کہ خیال، ریزن یا روح کا وجود کے بغیر رہ پانا اسے عینیت پرست بناتا ہے۔ مارکس نے ہیگل کے فلسفہ پر تنقید کرتے ہوئے پہلی مرتبہ جدلیاتی مادیت کے تصور کو سائنسی شکل فراہم کی۔مارکس ہیگل کی جدلیات کو سر کے بل کھڑا ہونے کی شکل میں دیکھتا ہے، یہ مکمل طور پر غلط نہیں بلکہ صرف اپنے میں الٹا ہونا ہے۔[11] مارکس ہیگل کے فلسفے کے نفس مضمون سے کم اس کے طریقہ کار سے زیادہ متاثر تھا۔ مارکس بھی حقیقت کو جدلیاتی مانتا ہے یعنی حقیقت متحرک اور مائل بہ ارتقا ہے ۔ ایک ہیئت اپنی تردید کرتی ہے اور اس تردید سے پھر نئی ہیئت پیدا ہوتی ہے۔ زندگی بھی ایک پیہم اور بے پایاں تکوین ہے۔ جس کے لیے تحریک لازمی ہے۔ ایک نئی صورت کے وجود میں آنے کے لے لازمی ہے کہ پرانی صورت مٹے لیکن مارکس حقیقت کو مادہ بتاتا ہے۔ مادہ جامد نہیں۔ ہیگل نے جدلیات کو وجودِ مطلق یا روح مطلق تک محدود کر دیا۔ مگر مارکس نے اس کا رشتہ مادیت سے جوڑ کر اس میں نئے انقلابی معنی پیدا کردیے۔ [12] لینن نے اپنی تصنیف میں اسے یوں بیان کیا ،ہیگل نے ڈارون او رمارکس سے پہلے لکھا تھا ۔ انقلاب فرانس نے سوچ کو جو زبردست تحریک دی تھی اس کی بدولت ہیگل نے سائنس کی ترقی کو پیشگی دیکھ لیا تھا۔ اگرچہ یہ ایک بڑے آدمی کی پیش بینی تھی مگر ہیگل نے اسے خیال پرستانہ کردار دے دیا اس نے خیالی سایوں کو حتمی حقیقت قرار دے ڈالا ۔ لیکن مارکس نے کہا کہ یہ خیالی سائے مادی اجسام کی حرکت کا عکس ہیں۔ [13]
’’جدلیات مارکسی فلسفہ میں (Methodology) کے اعتبار سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ جدلیات کے اجزائے ترکیبی یوں ہیں[14]:
- دعوی (Thesis)
- ردِ عوی (Anti-thesis)
- ترکیب (Synthesis)
جدلیات کی تعریف ٹراٹسکی نے ذیل الفاظ میں کی:
جدلیات نہ تو فکشن ہے اور نہ تصوف۔ اگر اسے زندگی کے عام مسائل تک محدود نہ رکھا جائے تو یہ ایک سائنس ہے جس کے ذریعے پیچیدہ اور طویل اعمال کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ جدلیات اور رسمی منطق میں وہی رشتہ ہے جو بالائی اور زیریں ریاضیات میں ہوتا ہے۔ [15]
جدلیات کے اصول
[ترمیم]ٹراٹسکی کے مطابق،جدلیاتی سوچ کا بیہودگی سے وہی رشتہ ہے جو چلتی تصویرکا ساکت تصویر سے ہوتا ہے۔چلتی تصویر ساکت تصویر کے خلاف نہیں جاتی بلکہ وہ حرکت کے اصول کے تحت ساکت تصویروں کو ایک تسلسل میں پرو دیتی ہے ۔ جدلیات سچ سے انکار نہیں کرتی بلکہ بہت سے سچ اس طرح جوڑ دیتی ہے کہ ہم ازلی طور پر تغیر پزیر حقیقت کو زیادہ قریب سے دیکھ سکتے ہیں ۔ ہیگل اپنی کتاب’’ منطق‘‘ میں قوانین کا ایک سلسلہ قائم کرتا ہے ۔ مثلاً مقدار کا معیار میں بدل جانا ‘ تضادات کے ذریعے آگے بڑھنا‘ ہیت اور مواد کا تصادم ‘تسلسل میں مداخلت ‘ امکان کا ناگزیر یت میں تبدیل ہو جانا وغیرہ۔نظریاتی سوچ کے لیے یہ سب کچھ اتنا ہی ضروی ہے جتنے قضیے ابتدائی کاموں کے لیے۔[15]
جدلیات کے تین اصول ہیں[16]؛
پہلا اصول’’ مقدار کی معیار میں تبدیلی‘‘ ہے۔ فطرت ہو یا انسانی سماج، ان میں تبدیلی کا عمل ہمہ وقت جاری رہتا ہے، مگر یہ تبدیلی محض ایک شکل سے کسی دوسری شکل ہی میں تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ اس تبدیلی میں سماج کی تشکیل و ارتقا کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ سماج اور فطرت میں تبدیلی کا عمل تو ہمہ وقت جاری رہتا ہے، مگر جدلیات مقدار کی معیار میں تبدیلی کی وضاحت کرتی ہے۔
دوسرا اصول ’’نفی کی نفی‘‘ ہے۔ نفی (Negation) صرف ایک منطقی مقولہ (Logical Category) ہی نہیں جو خیال پرست فلسفی کی ذہنی اختراع تھا۔ یہ سماجی تشکیل و ارتقا کی لازمی شرط ہے۔ کارل مارکس کے الفاظ میں سماجی وجود کی موجود اشکال کی’ نفی‘ کے بغیرکسی بھی قسم کا ارتقا ممکن نہیں ہے ۔
تیسرا مگر اہم ترین اصول ’’تخالفین کی وحدت اور جدوجہد‘‘ ہے۔ فطرت ہو یا سماجی تشکیل کا کوئی عمل ، وہ سماج میں متحرک قوتوں کے مابین ’تضاد‘ کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔بورژوا فلسفوں کی خامی یہ ہے کہ وہ ’تضاد‘ کو معروض (Object) کے اندر نہیں بلکہ خارج میں اس کے ’تخالف‘ کے طور پر تلاش کرتے ہیں۔
تاریخی مادیّت
[ترمیم]تاریخی ارتقا ء کو سمجھنے اور جاننے کے لیے مارکسی سائنس کے اطلاق کو تاریخی مادیت کا نام دیا گیا ہے۔اس کا بنیادی قضیہ مارکس نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا،’’انسانوں کا شعور انسان کے وجود کا تعین نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس انسان کا سماجی وجود اس کے شعور کا تعین کرتا ہے۔‘‘ مارکس نے انسانی سماجوں کی ترقی کی وجوہات کے لیے ٹھوس ، حقیقی وجوہات دریافت کیں۔ اس نے ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انسان کی محنت کو بنیادی عنصر قرار دیا۔ مارکس کے نزدیک انسان کی معاشی ضرورتیں انسان کو غور و فکر کرنے، آلات و اوزار ایجاد کرنے، قدرتی وسائل کو استعمال میں لانے اور زندگی کو بہتر بنانے پر، الغرض انسان کوذہنی اور جسمانی محنت کرنے ہی پر اکساتی ہیں اور محنت کے اس عمل میں انسان معاشرے کو بہتر سے بہتر بناتا رہتا ہے۔[17]
انسان فطرت کے ساتھ کس انداز سے نبردآزما ہے یعنی پیداوار کا وہ عمل جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کو برقرار رکھتا ہے اور اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس کے سماجی تعلقات کی تشکیل کس طرح سے ہوتی ہے اور ان کے نتیجے میں کس قسم کے ذہنی تصورات و افکار جنم لیتے ہیں۔انسانی سماج اور اس کی تاریخ پر مادی نقطہ نظر کے بنیادی اصولوں کے اطلاق کو بہت جامع انداز میں یوں پیش کیا گیا ہے کہ:’’اپنی زندگیوں کی سماجی پیداوار کے دوران افراد ایک دوسرے کے ساتھ ایسے رشتوں میں بندھ جاتے ہیں جو ناگزیر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی خواہشات کے تابع بھی نہیں ہوتے ۔ یعنی وہ پیداواری رشتے جو مادی پیداوار ی قوتوں کی ترقی کی اس مخصوص سطح سے میل کھاتے ہیں‘‘۔ ’’سماج کا معاشی ڈھانچہ انہی پیداواری رشتوں کے حاصل جمع پر مشتمل ہوتا ہے یہی وہ حقیقی بنیاد ہے جس پر ایک قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچہ کھڑا ہوتاہے اور سماجی شعور کی مخصوص ہیئتیں بھی اسی سے مطابقت رکھتی ہیں۔مادی زندگی کی پیداوار کا طریقہ ہی سماجی‘سیاسی اور فکری زندگی کے عمل کا تعین کرتا ہے۔‘‘[18]
مارکسی معیشت
[ترمیم]مارکس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’داس کیپیٹل‘‘ یعنی سرمایہ میں سرمایہ دارانہ نظام کی اصلیت کو بیان کرتے ہوئے مارکسی معیشت کی بنیادیں فراہم کیں۔[19] جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے ماہر معاشیا ت نے چیزوں کے مابین تعلق یعنی ایک مال کا دوسرے سے تبادلہ کو دیکھا وہاں مارکس نے لوگوں کے درمیان تعلق کو دیکھا۔ مالوں کا باہمی تبادلہ اس بندھن کو ظاہر کرتا ہے جو الگ الگ پیداوار کرنے والوں میں بازار کے ذریعے قائم ہوتا ہے ۔ روپیہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ بندھن زیادہ سے زیادہ قریبی ہوتا جاتا جا رہا ہے اور الگ الگ پیداوار کرنے والوں کی ساری معاشی زندگی کو ایک کل میں اس طرح جوڑتا جا رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں ہو سکتے ۔ آدمی کی محنت کی قوت ایک مال بن جاتی ہے ۔ اجرت پرکام کرنے والا اپنی محنت کی قوت کو اس کے ہاتھ بیچتا ہے جو زمین کا ، کار خانوں کا او رکام کے اوزاروں کامالک ہے ۔ مزدور کام کے دن کا ایک حصہ اس لاگت کے لیے کام کرنے میں لگاتاہے جو خود اس کے اور گھر بار کے خرچ کے لیے ضروری ہے ( یہ ہے مزدوری یا اجرت ) ، جب کہ دن کا دوسرا حصہ وہ بغیر اجرت کے کام کرتا ہے اور سرمایہ کے لیے قدر زا ئد (Surplus-Value ) پیدا کرتا ہے ۔ جو نفع کا اصل سرچشمہ ، سرمایہ دار طبقے کی دولت کا سرچشمہ ہے۔ قدر زائد کا نظریہ مارکس کے معاشی نظر ے میں بنیاد کا پتھر ہے۔ مارکسزم ایک ایسی سائنس ہے جو سرمائے کی اِس وحشیانہ حکمرانی کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے محنت کش طبقات کی رہنمائی کرتی ہے۔ ایسے میں اور بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ طبقاتی کشمکش پر مبنی سماج میں کوئی ’غیر جانبدار‘ سماجی سائنس نہیں ہوتی، سب سے بڑی منافقت اور ڈھونگ یہ ’غیر جانبداری‘ ہوتی ہے۔ تمام تر مروجہ نظریات کسی نہ کسی طریقے سے سرمایہ داری کا دفاع کرتے ہیں، جبکہ مارکسزم نے طبقاتی جبر و استحصال کے خلاف ایک بے رحم جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ایسے سماج میں جہاں منافع بنیادی طور پر محنت کش طبقات کی چوری شدہ محنت ہے وہاں یہ سوچ انتہائی بچکانہ ہے کہ محنت کشوں اور غریبوں کا استحصال کرنے والے ان سے کوئی انصاف برت سکتے ہیں۔[20]
ذیل میں مارکسی معاشی اصلاحات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
قدر
[ترمیم]محنت کرنے کی طاقت یا صلاحیت جب کسی قدرت کے عطیہ کو استعمالی جنس میں تبدیل کرتی ہے تو قدر کہلاتی ہے ۔ دنیا کی ہر جنس دو اشیا سے مرکب ہوتی ہے مادہ اور انسانی محنت ۔ مادہ قدرت کی طرف سے مفت عطا ہوتا ہے ۔ اس لیے جنس میں جو قدر پیدا ہوتی ہے۔وہ صرف انسانی محنت کا نتیجہ ہے۔قدرت مادے کی شکل بدلتی رہتی ہے۔اور انسان بھی اپنی محنت سے مادہ کی شکل بدلتا رہتا ہے ۔
زندہ سرمایہ
[ترمیم]زندہ سرمایہ وہ سرمایہ ہے جس سے مزدور کی کام کرنے کی صلاحیت یا طاقت خریدی جائے چونکہ مزدور کی کام کرنے کی طاقت اپنی قدر سے زیادہ قدر پیدا کرتی ہے اس لیے ہر کاروبا ر میں زندہ سرمایہ اپنی قدر سے زیادہ قدر پیدا کرتا ہے زندہ سرمایہ لچکدار ہو تا ہے اور کسی جنس میں یہی اصل قدر پیدا کرتا ہے جبکہ مردہ سرمایہ جس میں خام مال ، فیکٹری اور مشینیں وغیرہ شامل ہیں کوئی اضافی قدر پیدا نہیں کرتیں کیونکہ مردہ سرمایہ جنس میں جو قدر پیدا کرتا ہے وہ اپنی کل قدر کے برابر ہوتی ہے اس لیے یہ کسی منافعے یا قدر زائد کا باعث نہیں ہوتا کیونکہ یہ جنس کی تیاری میں اپنی تمام قدر آہستہ آہستہ منتقل کرکے ختم ہو جاتا ہے ۔ اس لیے منافعے اور قدر زائد کا اصل محرک انسانی محنت ہے جو مزدور پیدا کرتا ہے۔
انسانی محنت
[ترمیم]انسانی قوتِ عمل کے اخراج کا نام انسانی محنت ہے جس کے کرنے سے انسان تھک جاتا ہے۔یعنی محنت انسان کو اعصابی طور پر تھکا دیتی ہے ۔ اس طرح تمام محنتیں برابر ہوتی ہیں۔وہ چاہیے جسمانی محنت ہو یا ذہنی محنت ،اعصاب شکن ہو تی ہیں۔ لیکن وہ انسانی محنت جو جنس میں قدر پیدا کرتی ہے ۔ یہ محنت سماج کے لیے ضروری اور رواج کے مطابق ایک خاص قوام ،، محنت کا عرق ،، سے جنس تیار کر تی ہے ۔ جو محنت کسی استعمالی جنس میں قدر پیدا کرتی ہے۔معیاری ضروری سماجی محنت کہلاتی ہے ۔
محنت کیفت کے نقطہ نظر سے
[ترمیم]کیفیت کے نقطہ نظر سے محنت کسی خاص نوعیت کی ہوتی ہے مثلا ، درزی یا موٹر مکینک کی محنت۔درزی کی محنت ، نوعیت کے اعتبار سے موٹر مکینک کی محنت سے مختلف ہوتی ہے ۔ ہر مزدور کا اپنی صنعت میں کام کرنا اپنی محنت کو نوعیت کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔محنت کی نوعیت جنس کو کسی خاص استعمال کے قابل بناتی ہے اور جنس میں صرف قدر استعمال پیدا کرتی ہے ۔
محنت کمیت کے لحاظ سے
[ترمیم]ہر محنت انسان کو اعصابی لحاظ سے تھکا دیتی ہے۔اگر چہ محنت کی نوعیت جدا جدا ہوتی ہے لیکن ہر حال میں قوت عمل صرف ہوتی ہے۔یہاں محنت کرنے کی مدت اور محنت کی شدت کو دیکھا جاتا ہے۔محنت کا یہ رخ جنس میں قدر اصل پیدا کرتا ہے جس کو سرمایہ دار یا کوئی بھی مالک اپنے مزدور سے خریدتا ہے اور اجرت ادا کرتا ہے جس کا اتار چڑھاو ہی منافع کا تعین کرتا ہے ۔
(قدر اصل)
[ترمیم]محنت کی کمیت کا اصل رخ قدر اصل پیدا کرتا ہے۔استعمال کی جس شے پر بھی نظر ڈالی جائے وہ اس معیاری سماجی ضروری محنت اور وقت کا اظہار کرتی ہے جو اس کے بنانے میں صرف ہوتے ہیں جب کوئی شے سماج میں خریدہ وفروخت کے لیے بنائی جاتی ہے تو اس کی قدر کسی خاص کاری گر کی محنت سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس شے کی قدر اس معیاری محنت سے متعین ہوتی ہے جو سماج عام طور پر اس شے کے بنانے میں صرف کرتی ہے۔[21]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "The Struggle"۔ The Struggle۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27/08/2018
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 25 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2018
- ↑ Marx, Karl. " Marx to J. Weydemeyer in New York",Marxist Internet Archieve, March 5, 1852 . Retrieved on 30 August 2018.
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 12 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2018
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/mobile/world/2011/09/110904_marx_capitalism_ha.shtml
- ↑ سرمایہ، مارکس اور سوشلزم کی تنقید - ایکسپریس اردو
- ^ ا ب پ "مارکسزم کے تین سر چشمے"۔ مارکسٹ انٹرنیٹ ارکائیو۔ اخذ شدہ بتاریخ 28/08/2018
- ↑ "کمیونسٹ پارٹی کا مینی فیسٹو"۔ مارکسٹ انٹرنیٹ ارکائیو۔ اخذ شدہ بتاریخ 28/08/2018
- ↑ Ted Tripp, " Materialism versus idealism", Marxist Internet Archieve, 2015
- ↑ https://www.express.pk/story/225964
- ↑ https://www.marxist.pk/kants-philosophy-and-capitalism-part-3/
- ↑ https://www.aikrozan.com/%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%B3%DB%8C-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA
- ↑ https://www.marxists.org/archive/lenin/works/1913/mar/x01.htm
- ↑ https://www.aikrozan.com/%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%B3%DB%8C-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA
- ^ ا ب https://www.marxists.org/urdu/TrotskySec/PDFs/001-ABC%20OF%20DIALECTICS%20BY%20TROTSKY.pdf
- ↑ https://www.express.pk/story/225964
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 ستمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2018
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 30 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2018
- ↑ https://www.express.pk/story/1175751/268//
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 31 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2018
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 02 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2018